Ubqari®

عالمی مرکز امن و روحانیت
اعلان!!! نئی پیکنگ نیا نام فارمولہ،تاثیر اور شفاءیابی وہی پرانی۔ -- اگرآپ کو ماہنامہ عبقری اور شیخ الوظائف کے بتائے گئے کسی نقش یا تعویذ سے فائدہ ہوا ہو تو ہمیں اس ای میل contact@ubqari.org پرتفصیل سے ضرور لکھیں ۔آپ کے قلم اٹھانے سے لاکھو ں کروڑوں لوگوں کو نفع ملے گا اور آپ کیلئے بہت بڑا صدقہ جاریہ ہوگا. - مزید معلومات کے لیے یہاں کلک کریں -- تسبیح خانہ لاہور میں ہر ماہ بعد نماز فجر اسم اعظم کا دم اور آٹھ روحانی پیکیج، حلقہ کشف المحجوب، خدمت والو ں کا مذاکرہ، مراقبہ اور شفائیہ دُعا ہوتی ہے۔ روح اور روحانیت میں کمال پانے والے ضرور شامل ہوں۔۔۔۔ -- تسبیح خانہ لاہور میں تبرکات کی زیارت ہر جمعرات ہوگی۔ مغرب سے پہلے مرد اور درس و دعا کے بعد خواتین۔۔۔۔ -- حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کی درخواست:حضرت حکیم صاحب ان کی نسلوں عبقری اور تمام نظام کی مدد حفاظت کا تصور کر کےحم لاینصرون ہزاروں پڑھیں ،غفلت نہ کریں اور پیغام کو آگے پھیلائیں۔۔۔۔ -- پرچم عبقری صرف تسبیح خانہ تک محدودہے‘ ہر فرد کیلئے نہیں۔ماننے میں خیر اور نہ ماننے میں سخت نقصان اور حد سے زیادہ مشکلات،جس نے تجربہ کرنا ہو وہ بات نہ مانے۔۔۔۔

میرا اور عاشو کادل میلا ہو چکاتھا (سید انعام علی رضا)

ماہنامہ عبقری - ستمبر 2010ء

قارئین! سید انعام علی رضاصاحب موبائل 0300-7086684 کی کتاب ”واہ اور آہ“ جو مزاح کی چاشنی اور طنز کی کاٹ کا ایک حسین امتزاج ہے بزرگ موصوف نے پڑھنے کیلئے دی‘ اس مضمون نے چوکھٹ حیاءکو دستک دی‘ قارئین کی نذر کرتا ہوں(ایڈیٹر) راحیلہ میری چھوٹی سی بیٹی کا نام ہے۔ میری یہ بیٹی ننھی منی خوبصورت‘ نیلی نیلی آنکھیں‘ سنہرے بال‘بالکل گڑیا جیسی ہے۔ عمر ہوگی یہی کوئی ڈیڑھ پونے دو سال۔ چلنا اور باتیں کرنا اس نے ابھی کچھ دن پہلے سیکھا ہے‘ توتلی زبان میں جب باتیں کرتی ہے تو بہت ہی بھلی معلوم ہوتی ہے۔ خودبخود پیار کرنے کو جی چاہتا ہے۔ یوں تو اولاد اور والدین کے مابین محبت ایک فطری جذبہ ہے لیکن راحیلہ کو مجھ سے اور مجھے راحیلہ سے کچھ زیادہ ہی محبت ہے۔ ہم ایک دوسرے کے بغیر چین سے نہیں رہ سکتے۔ اگر کبھی کام کاج کے سلسلے میں کہیں چلا جاوں تو رو رو کر خود کو ہلکان کرلیتی ہے جب واپس آتا ہوں تو پھولی نہیں سماتی۔ میرے آگے پیچھے بھاگتی رہتی ہے۔ بعض دفعہ تو مجھے ستانے کی نیت سے دروازوں پر لٹکے ہوئے پردوں یا صندوقوں کے پیچھے یا پھر چارپائی کے نیچے چھپ کر خواہش ظاہر کرتی ہے کہ میں اسے تلاش کروں اور جب میں انجان بن کر اس کو تلاش کرنے میں ناکامی کا اظہار کرتا ہوں تو بے حد لطف اٹھاتی ہے اور جب سمجھتی ہے کہ میں کافی زچ ہوچکا ہوں تو زور زور سے چلاتی ہے بابو میں ادھر ہوں ادھر ہوں‘ آجائیے۔ میں نے بڑی کوشش کی ہے کہ وہ مجھے بابو نہ کہے بلکہ ابو کہے مگر وہ مجھے بابو ہی کہتی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ میرے تمام جاننے والے مجھے بابو ہی کہتے ہیں اور بچے تو ہمیشہ وہی کچھ سیکھتے ہیں جو وہ دیکھتے اور سنتے ہیں۔ بابو میں ادھر ہوں آجائیے۔ اب اس کا تکیہ کلام بن چکا ہے۔ اس سے پہلے اس کا تکیہ کلام تھا۔ ”شاباش شاباش ڈرو نہیں۔ آگے بڑھو“ اس کی وجہ تسمیہ یہ تھی کہ جب وہ چلنا سیکھ رہی تھی تو اس کا خوف دور کرنے کیلئے میں اس کو کھڑا کردیتا تھا اور چلنے کی ترغیب دیتے ہوئے پیار سے کہتا تھا کہ شاباش شاباش ڈرو نہیں۔ جس کو راحیلہ نے رٹ لیا۔ مجھے راحیلہ سے اس قدر پیار ہے کہ اس سے جدا ہونے کو جی نہیں چاہتا لیکن بعض دفعہ انسان اس قدر مجبور ہوجاتا ہے کہ نہ چاہنے کے باوجود کچھ کام ایسے کرنے پڑجاتے ہیں یہی کچھ ایک میرے ساتھ ہوا میں بھی راحیلہ کو روتا دھوتا چھوڑ کر گھر سے کوسوں دور چلا گیا۔ جس جگہ مجھے جانا پڑا وہ پہاڑوں کے درمیان ایک چھوٹی سی مگر انتہائی سرسبز‘ شاداب وادی تھی۔ ریلوے اسٹیشن وہاں سے 100 میل اور بس کااڈا 30 میل دور تھا۔ ہم لوگ اونٹوں پر سفر کرکے وہاں پہنچے تھے۔ اس قدر دلفریب اور نظرنواز مقام دیکھنے کا یہ میرا پہلا موقع تھا۔ کسی صورت بھی یہ مقام جنت سے کم نہ تھا۔ پہاڑوں کے دامن کو ہرے بھرے درختوں جھاڑیوں اور پہاڑوں کی چوٹیوں کو برف نے ڈھانپ رکھا تھا۔ دو چار روز تک تو مجھے ہوش ہی نہ رہا کہ میں یہاں اتنی دور کس مقصد کیلئے آیا ہوں۔ رات دن کا بیشتر حصہ قدرت کے نظاروں اور رنگینیوں سے لطف اندوز ہونے میں گزرجاتا۔ اس کے بعد ہم نے خانہ بدوشوں کی ایک جھگی کے پہلو میں اپنا خیمہ نصب کرکے اپنا کام شروع کردیا۔ خانہ بدوشوں کی اس جھگی میں پانچ افراد رہائش پذیر تھے ایک صاحب خانہ جس کا نام علو تھا۔ ایک اس کی بیوی نازو۔ ایک ان کی جواں سال بیٹی عاشو۔ ایک 12،13 سال کا لڑکا اور ایک پانچ چھ سال کی چھوٹی بچی۔ یہ لوگ بڑی خوش و خرم زندگی گزاررہے تھے۔ مجھے ان کی قابل رشک زندگی دیکھ کر اپنی جھمیلوں سے پرزندگی سے نفرت ہونے لگی۔ جی چاہتا تھا کہ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے یہاں بس جاوں۔ لیکن یہ ضروری تو نہیں کہ انسان کی ہر خواہش پوری ہو۔ کچھ دن بعد محسوس ہوا کہ عاشو کی مدھ بھری آنکھیں میرا تعاقب کرتی رہتی ہیں۔ یوں تو عاشو کی شخصیت سے میں پہلے ہی دن متاثر ہوا تھا لیکن یہ وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ محبت کے اظہار کی پہل خود عاشو کی طرف سے ہوگی۔ عاشو حسن کا ایک شاہکار تھی۔مرمر کا ایک ایسا مجسمہ تھا کہ جسے قدرت نے اپنے ہاتھوں سے تراشا تھا جس طرح اس سے پہلے اس قدر نظرنواز منظر میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا اسی طرح اس قدر حسین عورت بھی میں نے پہلے کبھی نہ دیکھی تھی۔ میں تو اسے بس دیکھتا ہی رہتا تھا۔سچ بات تو یہ ہے کہ پہلے ہی دن جب میں نے عاشو کو دیکھا تھا تو دل میں خواہش پیدا ہوئی تھی کہ کاش کہ میں اور عاشو.... ایک ہوجائیں لیکن اس کی معصوم شکل اور بھولپن دیکھ کر ہمت نہ پڑتی تھی کہ اس سے کوئی ایسی ویسی بات کروں۔ اب جو اس کو اپنی طرف متوجہ دیکھا تو میرے اندر کا شیطان جاگ اٹھا۔ یوں سمجھئے کہ میرے دل کی دبی آگ بھڑک اٹھی.... اور پھر آنکھوں آنکھوں کے زریعے ہمارا علیک سلیک کا سلسلہ چل نکلا۔ علو ایک سادہ لوح اور ہر ایک کو پیار کرنے والا انسان تھا۔ میرا بار بار اس کے گھر آنے جانے کو وہ میرا خلوص ہی سمجھتا رہا۔ ہر بارپہلے سے زیادہ میرے ساتھ عزت واحترام سے پیش آتا۔ اور یوں چند ہی روز میں، میں ان کے گھر کا چھٹا فرد بن گیا اب میں اور عاشو بلاخوف آپس میں باتیں کرتے رہتے تھے۔عاشو جب چشمے سے پانی بھرنے جاتی تو میں بھی کسی حیلے بہانے سے اس کے پیچھے کھسک جاتا تھا۔اگر علو یا اس کی بیوی نازو ہمیں سر راہ باتیں کرتا‘ یا ہنستا کھیلتا ہوا دیکھ بھی لیتے تو برا نہیں مناتے تھے ۔ کیونکہ ان کا اپنا دل صاف تھا وہ دوسروں کو بھی ایسا ہی سمجھتے تھے۔ ان کے دل میں کبھی یہ خیال تک نہ آیا تھا کہ میں ایک اجنبی آدمی ہوں جوان ہوں میرے قدم ڈول بھی سکتے تھے۔ یہ ان کی شرافت کی انتہا تھی۔ یہی وجہ تھی کہ آخر وقت تک پتہ نہ چل سکا کہ میرا اور عاشو کا دل میلا ہوچکا ہے۔ یوں ہمیں ایک دوسرے سے قریب آنے میں زیادہ دقت نہ ہوئی۔ محبت ایک شفاف شیشہ ہے اور یہ شیشہ اس وقت تک شفاف رہتا ہے جب تک اس کو میلے ہاتھ نہ لگیں اور اگر میلے ہاتھ لگ جائیں تو فوراً داغدار ہوجاتا ہے اور معمولی سی بے احتیاطی سے چکنا چور ہوجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ محبت کو ایک پاک اور لطیف جذبہ کا نام دیا جاتا ہے.... اور اگر بدقسمتی سے محبت کرنے والوں کے دل میں میل آجائے اور بہک کر محبت کے تقدس کو پامال کرنے کی ٹھان لیں تو پھر محبت۔ محبت نہیں رہتی بلکہ ہوس بن جاتی ہے اور انسان دیکھتے ہی دیکھتے درندوں کا روپ دھار لیتے ہیں۔ ابتداً میرا ارادہ تو یہی تھا کہ اپنی محبت کو داغدار نہیں ہونے دونگا لیکن.... دونوں طرف برابر کی لگی ہوئی آگ نے مجھے اپنے عہد پر قائم نہ رہنے دیا.... اور ہم نے اپنے وجود میں سلگتی ہوئی آگ کو سرد کرنے کا ناپاک منصوبہ بنالیا.... ایک دن عاشو نے پہاڑ کے دامن میں واقع ایک غار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ آج رات جب چاند ڈوب جائے تو تم اس غار میں آجانا۔ میں وہاں ملوں گی.... کسی سے محبت.... ملاقاتیں.... سفلی جذبات سے مغلوب ہوکر محبت کو پامال کرنے کا منصوبہ.... یہ باتیں میری زندگی کا نیا تجربہ تھیں اس وقت میری جو ذہنی کیفیت تھی وہ الفاظ میں بیان نہیں کی جاسکتی۔ وہ رات میرے لیے قیامت سے کم نہ تھی۔پہلے میری خواہش ہوا کرتی تھی کہ چاند ساری رات سر پر چمکتا رہے تاکہ قدرت کے نظاروںسے زیادہ دیر تک سرور حاصل کرتا رہوں لیکن آج جی چاہتا تھا کہ چاند ایک پل بھی نہ ٹھہرے اور فوراً ڈوب جائے انسان بھی کیا خودغرض واقع ہوا ہے۔خدا خدا کرکے چاند غروب ہونے کو آیا تو میں اٹھ کر غار کی طرف چل دیا۔ چلنے کو تو چل دیا لیکن ذہن.... عجیب سی کشمکش سے دوچار تھا۔ کبھی خیال آتا کہ مجھے ایسی غلط حرکت نہیں کرنی چاہیے کہ جس سے محبت کی تذلیل اور ایک باپ کی رسوائی ہو۔ اس باپ کی جو مجھ پر اعتماد کرتا ہے۔ مجھے اپنے گھر کا فرد سمجھتا ہے۔ باوجودیکہ میرے حسب نسب سے واقف نہیں ہے۔ میرے رتبے اور مرتبے سے ناآشنا ہے۔ محض انسانی ہمدردی کے تحت اور مجھے پردیسی جان کر مجھ پر دل و جان نچھاور کرتا ہے۔ اسے تو یہ خیال بھی کبھی نہ آیا ہوگا کہ میں اس قدر پست کردار اور ذلیل ذہنیت کا آدمی ہوسکتا ہوں کہ اپنے ہی محسن کی عزت کی طرف ہاتھ بڑھاوں گا.... پھر وہاں کے رسم و رواج اتنے سخت تھے کہ اگر ہمیں مشکوک یا قابل اعتراض حالت میں دیکھ لیا جاتا تو موقع پر ہی قتل کردئیے جاتے۔ یہ ساری باتیں سوچ سوچ کر میرا ذہن ماوف ہورہا تھا لیکن میری رفتار کم ہوئی نہ قدم آگے بڑھنے سے رک سکے.... اور میں چوروں کی طرح غار کی طرف بڑھتا گیا۔کبھی کبھار خوف کی لہر میرے جسم میں رواں خون کو منجمند کردیتی تھی لیکن دوسرے ہی لمحے عاشو کا قرب حاصل کرنے کا تصور اور جنون پھر سے خون کو گرما کر رواں کردیتا تھا۔ گویا میرے ضمیر کے مدوجزر نے مجھے پاگل سا کردیا تھا۔غار کے اندر سخت اندھیرا تھا میں اس کے دہانے پر پہنچ کر اندر جانے کیلئے سوچ ہی رہا تھا کہ اندر سے آواز آئی ”بابو میں اندر ہوںآجاو “مجھے یوں لگا کہ جیسے عاشو نے بات نہیں کی بلکہ کسی راکٹ برسانے والے خودکار آلے کا بٹن دبا دیا گیا ہے۔ یوں محسوس ہورہا تھا کہ میرے چاروں طرف گولے پھٹ رہے ہیں۔ دھماکے ہورہے ہیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے مجھے محسوس ہوا کہ چاروں طرف گولے پھٹ رہے ہیں۔ دھماکے ہورہے ہیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے مجھے محسوس ہوا کہ چاروں طرف دھواں پھیل گیا ہے۔دھواں چھٹا۔ اور میری آنکھیں اندھیرے میں دیکھنے کے قابل ہوئیں تو مجھے کچھ فاصلے پر ایک ہیولا دکھائی دیا.... میں ابھی سراسیمگی کے عالم میں کھڑا تھا کہ وہی آواز پھر کان سے ٹکرائی ”بابو ڈرو نہیں آجاو ....“اب کے ایسا لگا کہ کسی نے میرے کانوں میں پگھلا ہوا سیسہ انڈیل دیا ہے.... مجھے اپنا دل ڈوبتا ہوا محسوس ہونے لگا.... یوں لگ رہا تھا کہ غار کے اندر سے میری راحیلہ کی آوازیں آرہی ہیں.... قریب تھا کہ میرا ہارٹ فیل ہوجاتا۔ میں نے الٹے رخ بے تحاشا بھاگنا شروع کردیا اور اس وقت تک بھاگتا رہا جب تک وہ غار اور گاوں میری آنکھوں سے اوجھل نہ ہوگئے۔
Ubqari Magazine Rated 5 / 5 based on 755 reviews.